Add To collaction

ایک دردناک کہانی

ایک دردناک کہانی


میں جو پہلے ہی توصیف کے غم میں نڈھال تھی زرا سی توجہ اور ہمدردی پا کے رو پڑی اور اُسے سب کچھ سچ بتا دیا۔۔۔
روم میٹ مجھے کافی دیر ساتھ لگاٸے تسلیاں دیتی رہی اور آخر میں کہا کہ پگلی تمہیں سیریس ہونے کے لٸے کس نے کہا تھا انجوٸے کرو۔
یہ سوشل میڈیا ہے ہی ایسا یہاں روز رشتے بنتے ہیں روز ٹوٹ جاتے ہیں اِس  لٸے کسی کو سیریس مت لو۔۔۔
اور مجھے آنکھ مارتے ہوٸے بولی کہ اگر کہو تو میں کوٸی ڈھونڈ دوں اچھا سا۔۔۔
میرے بواٸے فرینڈ کا ایک دوست ہے بہت اچھا بندہ اُس سے بات کروا دوں تمہاری۔۔۔
بہت خوبصورت ہے تمہاری بہت کیٸر کرے گا سارا خرچہ بھی اٹھاٸے گا بس کبھی کبھار ملنے چلی جانا اُسے۔۔۔
میں نے سختی سے منع کر دیا۔۔۔

لیکن رہ رہ کے توصیف کی گندی باتیں یاد آتی توصیف کی گندی باتوں اور فیلنگ نے میرے اندر آگ لگا دی تھی نماز پڑھتی تو اُس میں بھی سکون نہ آتا
دل کرتا کوٸی ہو جو مجھ سے ہر وقت بات کرے۔۔

اور پھر کچھ دن بعد میری نظر سے ایک پوسٹ گزری ضرورت براٸے گرل فرینڈ کوٸی شریف لڑکی ہے تو انبکس رابطہ کرے۔۔۔ منجانب جہاں سکندر
مجھے فیس بک کی دنیا کا پتہ نہیں تھا کے اِس میں زرا سی جھول انسان کی زندگی تباہ کر دیتی ہے۔۔

میں نے ایسے ہی اُس لڑکے کی پروفاٸل چیک کی جس پہ اس نے کافی اچھی پوسٹ کر رکھی تھیں ۔۔۔
میرے دل میں ناول والے جہاں سکندر کا حلیہ گھوم گیا۔۔
مجھے لگا کہ یہ بھی ناول والے جہاں سکندر جیسا ہی ہوگا۔۔۔۔

یوں میں نےاُس کو فالو پہ کر لیا اب اُس کی پوسٹ اکثر نظر سے گزرنے لگی اور میں کبھی کبھار لاٸک بھی کرنے لگی۔۔۔
جہاں سکندر تھا بھی خوبصورت وہ جب بھی اپنی پک پوسٹ کرتا لاٸک کرنے والی لڑکیوں کی لاٸن لگ جاتی۔۔۔

کچھ دن بعد اُس لڑکے  کا مجھے میسج آیا اور ہماری بات شروع ہو گٸی اس کا نام سکندر تھا کافی اچھے سے بات کرتا تھا

کافی سمجھدار لڑکا تھا
اب ہمیں کافی دن بات کرتے ہوٸے ہوگٸے تھے 
ہم اب ایک دوسرے بہت حد فری بھی ہو چکے تھے۔

اِسی دوران  میں نے دو تین بار سکندر کو آزمانے کے لٸے اُس سے لوز ٹاک کرنے کی کوشش کی لیکن  اس نے ٹال دیا۔۔۔

اور مجھے اپنی سٹڈی پہ دھیان دینے کا کہا اب وہ اکثر مجھ سے میری سٹڈی اور کھانے پہ بات کرنے لگا اور میں لاپرواٸی کرتی تو وہ  مجھے ڈانٹ دیتا۔۔۔

میں بھی بہت خوش تھی کہ اُس کو اتنی لڑکیاں چاہتی ہیں لیکن وہ پھر بھی مجھ سے بات کرتا ہے۔۔۔۔۔

اب ہم لوگ گھنٹوں ویڈیو کال پہ بات کرتے رہتے۔۔

پھر  میرے امتحان شروع ہو گٸے اور ہماری بات کم 
ہونے لگی۔۔ 

اب چھٹیاں ہو گٸی تھی تو مجھے گھر جانا تھا اس لٸے سب کلاس فیلو نے ایک پارٹی رکھی اور خوب انجوٸے کیا۔۔

سکندر نے مجھے جانے سے پہلے ایک بار ملنے کا کہا کیونکہ وہ بہاولپور کا ہی تھا ۔۔۔
میں بھلے جیسی بھی تھی لیکن اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی تھی۔۔۔
اس لٸے سختی سے انکار کر دیا گو کے سکندر نے  مجھ سے کبھی کوٸی غیر اخلاقی بات نہیں کی تھی آج تک۔۔۔

لیکن پھر بھی ملنے کے  لٸے میں کسی صورت تیار نہ تھی۔۔۔
چھٹیاں ہوتے ہی میں گھر آ گٸی اور کچھ نا ملنے کی وجہ سے سکندر میرے ساتھ غصہ رہنے  کے بعد ٹھیک ہو گیا۔۔۔

پوری چھٹیاں میں نے اور سکندر نے خوب باتیں کی لیکن اُس نے کبھی بھی کوٸی غیر  اخلاقی بات نہ کی۔۔

اب میں بھی اس کی شرافت کی قاٸل ہو گٸی تھی اور پھر ایک دن سکندر نے اپنی محبت کا اظہار کر دیا۔۔

توصیف جیسے لڑکے کے بعد سکندر جیسا شریف لڑکا ملنا میرے لٸے نعمت سے کم نہیں تھا 

جس نے مجھے اس گندے ماحول سے نکالا تھا۔۔۔ 
اِس لٸے کچھ دن کی باتوں کے بعد میں نے بھی محبت کا اقرار کر لیا۔۔۔
اب ہم گھنٹوں ایک دوسرے کی محبت میں کھوٸے رہتے اور باتیں کرتے رہتے۔۔

بابا اور بھاٸی پورا دن ڈیرے پہ ہوتے تھے ماں سادہ تھی یہی سمجھتی کہ لیپ ٹاپ پہ پڑھ رہی ہوں۔۔۔

چھٹیاں ختم ہوتے ہی میں دوبارہ ہاسٹل آ گٸی اور ضد کر کے ابو سے موباٸل بھی لے لیا اب سکندر کی اور میری باتیں فون پہ ہونے لگی۔۔۔
اور میں اُس کی محبت میں فل پاگل ہو گٸی 

کچھ دن بعد سکندر کی ایک بار پھر ڈیمانڈ آٸی کہ ملو مجھ سے میں نے ہمیشہ کی طرح انکار کر دیا۔۔

تب اس نے کہا کہ مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے تمہیں 
میں نے بتایا کہ بھروسہ ہے لیکن میں مل نہیں سکتی 
اُس نے مجھے اپنی محبت اور سچاٸی کا یقین دلانے کے لٸے اپنی بہن کا نمبر دیا اور کہا بات کر لو۔۔۔

اب سکندر کی بہن سے بھی میری بات ہونے لگی کچھ ہی دن میں ہماری دوستی ہو گٸی۔۔۔
کبھی کبھی سکندر کی امی سے بھی بات ہو جاتی وہ لوگ بہت خوش ہوتے مجھ سے بات کر کے ۔۔۔
اور میں اب سکندر پہ پورا بھروسہ کرنے لگی۔۔۔۔

ایک دو بار سکندر کی بہن یونیورسٹی بھی آٸی میرے لٸے اور میری روم میٹ کے لٸے کھانا چاکلیٹ وغیرہ لے کر اور بھی گفٹ لاٸی ۔۔۔
وہ مجھے سب کے سامنے بھابھی کہتی تو مجھے بہت اچھا لگتا۔۔
پھر سکندر نے مجھ سے میرے  گھر کا ایڈریس لیا 
 اور جب  ویک اینڈ پہ میں گھر آٸی تو اپنی بہن کو لے کر ہمارے گھر آ گیا۔۔
باہر آ کے سکندر نے کال کی کہ آپی اور میں تمہارے گھر کے باہر کھڑے ہیں تمہارا رشتہ لینے آٸے ہیں۔۔
مجھے ایک خوبصورت احساس ہوا۔۔۔

اور میں نے امی سے جھوٹ بولا کہ میری ایک دوست شہر سے مجھے ملنے آٸی ہے۔۔۔
امی نے کہا ست بسم اللہ بلا لے پتر تبھی ہمارے گھر کام کرنے والی نے آ کے بتایا کہ باہر کوٸی لڑکی میرا پوچھ رہی ہے۔

امی اور میں باہر آٸے تو ایک حاضر ماڈل نیو کرولا ہمارے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔
میں پہلی بار سکندر کو ایسے فیس ٹو فیس دیکھ رہی تھی۔۔۔
وہ بہت پیارا اور ہینڈسم تھا
امی ان لوگوں کو اندر لے آٸی اور دیسی ماحول کے مطابق خدمت کی۔۔۔
جاتے ہوٸے سکندر کی بہن نے میری ماں سے کچھ دیر علیحدہ بات کی اور چلے گٸے ۔۔۔

سکندر کی بہن نے امی کو یہ کہا تھا کہ آپ کی بیٹی میری کلاس فیلو ہے اور مجھے بہت پسند ہے میرا بھاٸی پولیس میں بہت بڑا افسر ہے ہم سدرہ کا رشتہ لینا چاہتے ہیں۔۔۔

امی نے سوچنے کی بات کہہ  کر ان کو بھیج دیا اور بعد میں مجھےسمجھایا کہ تیرے بابا کبھی نہیں مانیں گے۔۔
تو باز آ جا۔۔

اب میں یونیورسٹی گٸی تو سکندر نے مجھے ملنے پہ فورس کر لیا اور وعدہ کیا کہ ساتھ آپی بھی ہو گی اور میں نے حامی بھر لی ۔

دو گھنٹے ہم لوگ گھومتے رہے اور پھر کھانا کھا کے انہوں نے مجھے یونیورسٹی اتار دیا۔۔

اب تو میرا سنکدر کے بنا ایک پل بھی نہیں گزر رہا تھا اِسی لٸے کچھ دن بعد ہم نے پھر ملنے کا پلان کیا اور اِس بار ہم آپی کے بنا ملے۔۔۔

کچھ دیر ساتھ رہے کھانا کھایا جب سکندر مجھے واپس یونیورسٹی چھوڑنے آیا تو میری طرف کا سیٹ بیلٹ پھنس گیا جب مجھ سے نا کھلا تو سکندر نے میری مدد کی سیٹ بلیٹ کھولنے میں۔۔۔۔۔۔۔
اور کھولتے ہوٸے سکندر کے بازوں کا دباٶ مسلسل میرے سینے پہ پڑ رہا تھا۔۔۔
اُس کے ہونٹ مسلسل میرے ہونٹوں کے پاس تھے۔۔

یہ ایسا لمحہ تھا  جس نے مجھے بے چین  کر دیا اور مجھ پہ ایک نشہ چھا گیا
میں ہاسٹل آ کے بھی سکندر کے بازوں کا دباٶ أپنے سینے پہ محسوس کر رہی اور یہ بات مجھے لُطف دے رہی تھی۔۔۔

ہم دونوں پورا ہفتہ اِس  بات کو یاد کر کے سرور حاصل کرتے رہے۔۔۔

اور پھر ہم نے ملنے کا پلان بنایا اس بار سکندر مجھےایک ایسے ہوٹل لے گیا جہاں پہ روم بھی ملتے تھے اس نے وہاں پہلے سے روم بک کروا رکھا تھا۔۔۔۔

یہاں تک پہنچ کے سدرہ کی ہمت جواب دے گٸی اور وہ پھوٹ پھوٹ کہ رو پڑی۔۔۔

میرے پاس بھی کوٸی الفاظ نہیں تھے کہ اسے حوصلہ دوں بس چپ چاپ اس کی بربادی کی داستان سن رہا تھا 

_____________________💕💕💕__________________

مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کے سدرہ کو چپ کیسے کرواٶں اُس کی صحت کے  لٸے ٹینشن لینا اور رونا خطرناک تھا۔۔

میں بنچ  سے  اٹھا اور پاس پڑی بوتل سے پانی گلاس میں ڈال کے سدرہ کے  پاس آ گیا۔۔۔۔۔

اُس کے کندھے کو تھپتھپایا سِڈ حوصلہ رکھو۔۔۔
سِڈ تم تو بہت حوصلے والی ہو یہ لو پانی پیو۔۔۔

کچھ دیر بعد جب سدرہ کے ہوش و حواس بحال ہوٸے تو اُس نے میرے منع کرنے کے باوجود دوبارہ بات وہیں  سے شروع کی جہاں سے روکی تھی اور نا چاہتے ہوٸے مجھے سننا پڑی۔۔۔

سدرہ نے  بتانا شروع کیا سکندر اور میں جب  ہوٹل روم میں پہنچے تو مجھے اندازہ نہیں تھا۔۔
آج کا دن میرے لٸے سیاہ ترین دن ہے اور آج کا دن میری زندگی ہمیشہ کے لٸے برباد کر دے گا۔۔۔۔

کچھ دیر ہم لوگ ہنسی مزاق کرتے رہے کوک پی لیز کھاٸے 
سینڈوچ کھاٸے میں بیڈ پہ بیٹھی تھی اور سکندر چیٸر پہ۔۔۔

جب ہم کھانے سے فری ہوٸے تو میں نے کہا اب چلیں سکندر دیر ہو رہی ہے ۔۔۔

سکندر نے میرے چہرے کو دیکھتے ہوٸے معنی خیز انداز  میں کہا ایسے ہی چلے جاٸیں۔۔۔۔

اتنے ٹاٸم کے بعد تو ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ ملا ہے تو اِس ساتھ کو کیوں نہ امر کر دیں ہمیشہ کے لٸے۔۔۔

اِتنی بات کہہ  کر سکندر اٹھ کے میرے پاس بیڈ پہ آ گیا۔۔

میں زرا سی دور ہوٸی تو سکندر نے ہنستے ہوٸے کہا جان جی گاڑی والا سین یاد ہے تمہیں میرے بازوں کا دباٶ پڑنا😘😘

میں نے انجان بنتے ہوٸے کہا کون سا سین اب میرے دل کی ڈھرکن بہت بڑھتی جا رہی تھی دماغ میں ایک انجانا خوف پیدا ہو رہا۔۔

ہاہاہاہاہا سکندر نے قہقہہ لگایا مجھے یاد ہے جب میں سیٹ بیلٹ کھولنے لگا تھا۔۔۔
اچھا چھوڑو بتانا کیا ہے پریکٹیکل کر کے دکھاتا ہوں۔۔

یہ کہتے ہوٸے سکندر نے مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا میں نے کافی کوشش کی خود کو آزاد کروانے کی مگر سکندر کی پکڑ بہت مضبوط  تھی۔۔۔۔۔

کچھ پل بعد میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تو سکندر نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔
سدرہ میری جان کیا ہوا پلیز رونا بند کرو سکندر نے مجھے چپ کرواتے ہوٸے کہا۔۔
پلیز مجھے یونیورسٹی اتار دو میں یہ سب نہیں کر سکتی میں تم سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں۔۔
میں نے سکندر سے التجا  کی۔۔۔

سکندر نے کوک گلاس میں ڈال کے مجھے پکڑاتے ہوٸے کہا اچھا کوک پیو ہم واپس چلتے ہیں۔۔

میں نے ایک ہی سانس میں پورا  گلاس ختم کر لیا۔۔۔
اب چلیں پلیز میں نے ایک بار پھر التجا کی۔۔۔
سکندر کچھ پل میری آنکھوں میں   دیکھتا رہا اور بولا اچھا ٹھیک ہے ہم کوٸی ڈرٹی کام نہیں کریں گے۔۔
لیکن پیار تو کچھ دیر کر سکتے ہیں نا۔۔

پلیز میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے اِتنا تو میرا حق ہے
اور صرف لپ کِس اور گردن کِس کروں گا پلیز سدرہ مان جاٶ نا میری جان ہو نا۔۔۔۔

سکندر نے فل اداس ہونے کی ایکٹنگ کی جسے میں اُس وقت سمجھ نہ سکی۔۔۔
محبت تو اُس سے میں بھی کرتی تھی لیکن یہ سب غلط تھا لیکن میں سکندر کو نا  اداس دیکھ سکتی تھی اور نا ہی  ناراض کر سکتی تھی 
میں نے پیار سے سکندر کے بال بگاڑے اور بانہیں  گلے میں ڈالتے ہوٸے کہا پیار سے اچھا ٹھیک ہے لیکن صرف پیار کرنا ہے اور کچھ نہیں مجھے آپ پہ پورا بھروسہ ہے۔۔۔

مجھے اُس وقت یہ علم نہیں تھا  صرف پیار اور کچھ نہیں  اصل میں یہی فیلنگ کو اِتنی ہوا دے دیتا ہے کے پھر سب کچھ ہو جاتا ہے۔۔۔۔

سکندر نے خوش ہوتے ہوٸے کہا اچھا ایک بات اور سدرہ پلیز پلیز منع مت کرنا۔۔

سکندر نے ہاتھ جوڑتے ہوٸے کہا۔۔
کیا بات ہے مجھے لگا وہ اُسی بات پہ زور دے گا۔۔۔

لیکن سکندر نے مجھے بانہوں میں لیتے ہوٸے پیار سے کہا 
میری جان تم مجھے پھر ملنے نہیں  آٶ گی اور نا ہی میں چاہتا ہوں 
کیونکہ تم میری عزت ہو اور میں نہیں چاہتا کہ میری عزت یوں ہوٹلوں میں بدنام ہو۔۔۔
سکندر کی اِس بات پہ میرا دل جھوم اٹھا دل کر رہا تھا کہ ابھی سکندر پہ اپنی زندگی وار دوں۔۔۔

آج کے بعد ہم نکاح ہونے تک باہر ملے بھی تو صرف کھانا کھاٸیں گے کسی اوپن جگہ پہ 
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا جیسے آپ کہیں سکندر مجھے آپ پہ پورا بھروسہ ہے۔۔۔

سدرہ میری جان میں چاہتا ہوں کے آج ملنے تو ویسے لگے ہیں اور کوٸی غلط کام  بھی نہیں کرنا۔۔۔
صرف پیار ہی تو کرنا ہے 
اس لٸے میں چاہتا ہوں کہ ہم جو پیار کریں اُس کو کیمرے میں قید کر لیں۔۔۔
اُس کی مووی بنا لیں جب بھی دل اداس ہو گا دونوں مل کے دیکھ لیں۔۔۔
کیونکہ میری جان اب کبھی میں آپ کو ہوٹل نہیں لاٶں گا آپ عزت ہو میری۔۔۔
سکندر نے پیار سے میری پیشانی چومتے ہوٸے کہا

مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ ویڈیو میری بربادی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی
جس سے محبت کی جاتی ہے سب سے پہلے اُس پہ ٹرسٹ کیا جاتا ہے 
میں بھی سکندر سے  محبت کرتی تھی ٹرسٹ کرنا میری مجبوری تھی اس لٸے سکندر کی  بار بار ریکویسٹ اور میری  جان میری عزت اور نکاح جیسے جھوٹے وعدے پہ اُس کو ویڈیو بنانے کی  اجازت دے دی۔۔۔

سکندر نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھ سے نکاح  کرے گا 

سکندر نے موباٸل ویڈیو موڈ  پہ کر کے مجھے کہا کے بیڈ پہ لیٹ جاٶ تاکہ سیٹ کر کے رکھ سکوں جس میں ہم دونوں کی ویڈیو اچھی اور صاف آٸے۔۔۔

پھر وہ موباٸل بیڈ کے ساتھ پڑی ٹیبل پہ سیٹ کر کے بیڈ پہ آ گیا۔۔۔

کچھ دیر ہم لوگ ایسے ہی لیٹے ہوٸے پیار کرتے رہے لیکن اب بات کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔

ایک جوان لڑکی لڑکا  اکیلے روم میں ہوں اور اِس حالت میں بیڈ پہ ہوں تو  کنٹرول تو مشکل ہونا ہی تھا۔۔

اب سکندر نے میرا ڈریس ریموو کرنا شروع کیا تو میں نے ایک بار پھر رونا شروع کر دیا۔۔۔
لیکن سکندر نے مجھے سمجھایا کہ تم میری جان ہو میری زندگی ہو میں تم سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔۔۔

تم میری آپی کو جانتی ہو اُن سے مل چکی ہو میری امی سے بات کر چکی ہو میں اور میری بہن تمہارے گھر تمہارا رشتہ مانگنے آ چکے ہیں۔۔۔۔

اب بھی تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہیں دھوکہ دوں گا۔۔

یہ کہتے ہوٸے سکندر نے میرے ہونٹوں پہ پیار کیا اور میں بے بس ہو گٸی اور دل سکندر کے حق میں دلیلیں دینے لگا کہ وہ ایسا نہیں ہے وہ دھوکہ نہیں دے گا وہ تم سے نکاح کرے گا۔۔۔

لیکن میں نے پھر تصدیق چاہی کہ سکندر اگر میرے گھر والے نہ مانے تو۔۔

تو ہم کورٹ میرج کر لیں گے سکندر نے پُراعتماد لہجے میں جواب دیا۔۔۔
پکا نا مجھے چھوڑو گے تو نہیں 
میرے اندر کا خوف ختم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔

اف پاگل لڑکی کہو تو کل  ہی کر لیتے ہیں  نکاح یہ کہتے ہوٸے ہوٸے سکندر مجھ پہ جھک گیا اور میں نے خود کو اُس کے حوالے کر دیا۔۔۔

جب ہوش آیا تو میں اپنی سب سے قیمتی اور انمول چیز عزت سکندر پہ نچھاور کر چکی تھی۔۔۔

سکندر نے مسکراتے ہوٸے میرے جسم سے کمبل کھینچ کے  کہا سدرہ تمہیں واقعی رب نے بہت فرصت سے  بنایا ہے 

تمارے  جیسا پیارا اور سوفٹ جسم آج تک میں نے کسی لڑکی کا نہیں دیکھا ..
سکندر کی اِس بات نے مجھے چونکا دیا  
کسی لڑکی کا ایسا جسم نہیں دیکھا مطلب آپ میرے سے پہلے بھی ایسا کر چکے ہو لڑکیوں کے ساتھ۔۔۔

میں نے غصے سے سکندر کو دیکھتے ہوٸے  کہا۔۔

سکندر کے چہرے پہ ایک رنگ سا آ کے گزر گیا وہ بات سنبھالتے ہوٸے بولا ارے یار توبہ ہے ویسے۔۔۔۔
یہ الزام ہے مجھ معصوم پہ
میں کیوں ایسا کروں گا کسی لڑکی کے ساتھ۔۔۔
یار مووی وغیرہ میں دیکھتا ہوں لڑکیوں کا جسم 

تو میں یہ کہہ  رہا تھا کہ اتنا پیارا جسم مووی میں بھی نہیں دیکھا کسی لڑکی کا آج تک
میرا دل قدرے مطمٸن ہو گیا کیونکہ جس سے انسان کو محبت ہو اُس کے خلاف بندہ سوچ ہی نہیں سکتا۔۔۔۔









   24
0 Comments